حج ایک ایسی عبادت ہے جس کی خواہش ہر مسلمان کے دل میں بستی ہے۔ یہ چاہت بوڑھے اور ضعیف مسلمانوں میں بھی جوان رہتی ہے، چاہے وہ نوجوان ہوں یا عمر رسیدہ لوگ۔ آپ جس سے بھی اس بابت بات کریں، اس کی ٹھنڈی آہیں اور چمکتی آنکھیں اس کی حج کی تمنا اور شوق کو ظاہر کر دیں گی۔
پاک و ہند میں حج کے سفرنامے لکھے گئے ہیں، جو صرف سفرنامے نہیں بلکہ ان میں ہر سال ہونے والے حج کی تاریخ کو عہد بند کیا جاتا ہے۔ اردو ادب میں حج کے سفرناموں کی ابتدا کا ذکر ڈاکٹر محمد شہاب الدین نے اپنی کتاب “اردو میں حج کے سفرنامے” میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ صوبہ بہار کے سید شاہ عطا حسین فانی گیاوی مصطفی خان شیفتہ کے ہم عصر تھے۔ مصطفی خان شیفتہ نے 1839 میں سفر حجاز کیا اور حج کی ادائیگی کے بعد 1841 میں واپس لوٹے، جبکہ سید شاہ عطا حسین فانی گیاوی نے 1844 میں حج کا سفر شروع کیا اور ڈاکٹر محمد شہاب الدین کے مطابق سید شاہ عطا حسین فانی گیاوی نے “دید مغرب” معروف بہ “ہدایت المسافرین” کے نام سے سفرنامہ حج پیش کیا، جو اردو کا پہلا حج نامہ ہے اور یہ غیر مطبوعہ شکل میں ہے۔
اس کے بعد اردو میں دوسرا حج نامہ رئیسہ بھوپال نواب سکندر بیگم نے “یادداشت تاریخ وقائع” کے نام سے تحریر کیا۔ یہ حج 1864 کو ہوا اور یہ سفرنامہ بھی غیر مطبوعہ شکل میں ہے۔
مطبوعہ حج ناموں کا آغاز حاجی منصب علی خان کے “ماہ مغرب” سے ہوا، جو 1871 میں شائع ہوا۔ اس حج نامے کا مکمل نام “ماہ مغرب المعروف بہ کعبہ نما” ہے۔
اردو میں سفرنامہ نگاری کا آغاز یوسف خان کمبل پوش حیدر آبادی کے سفرنامہ “تاریخ یوسفی” سے 1847 میں ہوا، اور اسی عرصے میں حج نامہ تصنیف کرنے کا رجحان بھی شروع ہوا۔ محمد شہاب الدین نے اپنی کتاب “اردو حج کے سفرنامے” میں انتہائی محنت سے کتاب کو مرتب کیا ہے، اور انہوں نے چند اہم ابتدائی حج ناموں کا فنی و ادبی مطالعہ بھی کیا ہے۔
ابتدائی حج ناموں میں انہوں نے منصب علی خان کے حج نامے “ماہ مغرب المعروف بہ کعبہ نما” کا ذکر کیا ہے، جو 1871 میں لکھا گیا۔ اس کے بعد تجمل حسین کا “سراج الحرمین” ہے جو 1873 کا ہے۔ تیسرے نمبر پر علیم الدین کا “رسالہ حج” کا ذکر ہے جو 1892 کا ہے۔ چوتھے نمبر پر دلاور علی کا حج نامہ “سیاحت الحرمین بزیارت الثقلین” کے نام سے ہے، جو 1893 کا ہے۔ پانچواں حج نامہ محمد حفیظ اللہ کا “سفر نامہ عرب” ہے، جو 1895 کا ہے۔ اسی طرح چھٹا حج نامہ مرزا عرفان علی بیگ کا “سفر نامہ حجاز” کے نام سے ہے، جو 1895 کا ہے۔ ساتواں حج نامہ محمد ر علی خان کا “زاد غریب المعروف بہ ماہ غرب” ہے، جو 1896 کا ہے۔
مذکورہ بالا سطور میں حج ناموں کی اردو ادب میں ابتدا کے حوالے سے لکھا گیا ہے، لیکن حج ناموں میں جو ادب پوشیدہ ہے وہ ایک الگ ہی باب ہے۔ وہاں جاکر ادیب و شاعر اپنے افکار کو یوں بیان کرتے ہیں کہ تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادب کی یہ صنف ہمارے ہاں پردوں میں چھپی ہوئی ہے، جسے منظر عام پر آنا چاہیے۔